جذبہِ آزادی 14th August Independence Day
*یہ کہانی سچے واقعے سے ماخوذ ہے ،موضوع سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے اس میں کچھ تبدیلیاں کی گی ہیں -اس گاؤںمیں بنیادی سہولیات کا فقدان تھا ٹیلیویژن وغیرہ بہت کم لوگوں کے گھروں میں تھا پھر بھی وطن کی محبت سے سرشار بچےسکول آتے جاتے فوجیوں کو سلوٹ کرکے آتے تھے۔پیشے والا سبق پڑھایا تو سب بچوں نے کہا ٹیچر ہم فوجی بنیں گے۔اب میرا اس گاؤں سے تبادلہ ہو گیا ہے لیکن جب بھی جشن آزادی یا حُب وطنی پر کوئی تقریب ہوتی ہے میں یہ واقعہضرور سناتی ہوں۔*
#حراظفر
#HirasECLC
#جشن_آزادی : #جذبہ
میری پہلی تقرری جس سکول میں ہوئی تھی وہ ایک حساس ادارے کے قریب واقع تھا۔ سرحدوں پر کشیدگی کی وجہ سےجشن آزادی کی تقریبات منسوخ کردی گی تھیں ۔ ۱۴ اگست کو ہمیں سکول میں بچوں کو جنگ کی صورتحال میں احتیاطیتدابیر کی مشق کروانی تھی ۔ سکول پہنچی تو عام تعطیل کی وجہ سے بچوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی لہذا جو بچے ہمیںدیکھ کر سکول آئے تھے ان کو واپس بھیجا کہ جا کر باقی بچوں کو بھی بُلا لائیں۔(جشن آزادی کی تقریب نہیں ہو رہی سادہکپڑوں میں سکول آئیں) جب بچے چلے گے تو میں نے دفتر میں جا کر اخبار اٹھایا ایک کالم پڑھا جس کا عنوان تھا “جذبہ” اسمیں آزادی کے لئے دی گی قربانیوں کا ذکر تھا۔اور ۱۹۶۵ کی جنگ میں جس جذبے سے جنگ لڑی اس کا ذکر تھا کہہتھیار کم تھے ،نوجوان ڈنڈے لے کر واہگہ باڈر پر پہنچ گے تھے ۔خون دینے والوں کی لمبی قطاریں تھیں پر بلڈ بنک میںخون ذخیرہ کرنے کی گنجائش کم۔۔۔
”ایک ٹیڈی پیسے میں شاستری کی موت” جیسی تحریکوں میں ہماری ماؤں نے اپنے زیور تک دے دیئے تھے ۔
جشن آزادی اور سرحدوں پر کشیدگی ایسے حالات میں اس کالم نے میرا سیروں خون بڑھا دیا تھا لیکن کالم کی آخری سطروںنے مجھے جھنجھوڑ دیا کہ“نئی نسل میں یہ جذبہ ناپید ہے۔آج کل کے بچوں کو آزادی کی اہمیت کا احساس نہیں ہے۔اگراب جنگ ہوئی تو شاید ہماری یہ نسل اس نعمت کی حفاظت نہ کر سکے “کیا واقع ہی نئی نسل میں جذبے کی کمی ہے۔یہبات میرے ذہن میں گردش کر ہی رہی تھی کہ“پاکستان زندہ آباد” کے نعرے گونجنے لگے۔ دفتر سے باہر آکر دیکھا تو سکولکا صحن سبز کپڑے پہنے ہاتھوں میں جھنڈیاں اٹھائے بچوں سے بھر ا ہوا تھا۔حالانکہ کہا بھی تھا کہ تقریب نہیں ہوگی سادہکپڑوں میں آئیں۔
پر دل میں کہا: یہ ہے جذبہ!
بچوں کو معاملے کی نزاکت کا بتایا کہ جنگ کا خطرہ ہے آپ نے آزادی کی رکھوالی کرنی ہے -اس کے بعد تربیتی مشق کاآغاز کیا اگر دشمن کے جہاز آجائیں توچھپی ہوئی محفوظ جگہ ڈھونڈ کر زمین پر لیٹ جانا ہے۔ دیواروں سے دور رہنا ہے منہمیں پنسل ڈال کر دانتوں میں دبا لینی ہے اس سے دانت نہیں ٹوٹتے وغیرہ وغیرہ ۔
اس کے بعد سوال جواب کی نشست ہوئی جس میں دی گی تربیت کے حوالے سے بچوں سے سوالات پوچھے گے۔
منیب جو کہ میری جماعت کا سب سے ذیادہ شرارتی بچہ تھا اس سے پوچھا : بیٹا فرض کرو دشمن کے جہاز یہاں آ جائیں توآپ کیا کرو گے؟؟
ممکنہ جواب :چھپی ہوئی جگہ زمین پر لیٹ کر منہ میں قلم دبا لوں گا۔
💛منیب:مس جی اگر یہاں جہاز آیا ناں تو میں چھت پر چڑھ کر جہاز کو بٹّے ( پتھر)مار کر اسے گراؤں گا ۔🥺
اس بچے کی بات سن کرمیری آنکھیں بھر آئیں میں کالم نگار کو بتانا چاہتی تھی کہ یہ نئی نسل کے مسلمان شیر بچوں کا جذبہہے۔یہ جانتے ہیں کہ جنگیں ہتھیاروں سے نہیں جذبے سے جیتی جاتی ہیں یہ نہتے ہو کر بھی دشمن کے جہازوں کا مقابلہکرنے کو تیار ہیں -جس قوم کے بچوں کا یہ جذبہ ہو اس قوم کی طرف کون میلی آنکھ اٹھا کر دیکھ سکتا ہے۔تحریک آزادیہو ۱۹۶۵کی جنگ اس وقت جو جذبہ ہمارے بزرگوں کا تھا آج بھی وہ زندہ ہے ہماری نئی نسل آزادی کی قدر جانتی ہےاور اس کا دفاع کرنے کے لئے تیار ہے۔
Comments
Post a Comment